فیصل آباد کی سینٹرل جیل سے دو قیدی اہم شخصیات کو فون کرتے ہوئے پکڑے گئے۔
محکمہ جیل خانہ جات پنجاب کی خصوصی ٹیم نے خفیہ اطلاع ملنے پر فیصل آباد کی سنٹرل جیل پر چھاپہ مارا اطلات کے مطابق ایک بیرک سے کچھ مشکوک اور پراسرار کالیں کی گئیں اور کال کرنے والوں کا سراغ لگا لیا گیا۔ محکمے کے دو ڈی آئی جیز کی سربراہی میں، ٹیموں نے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کیا، دو قیدیوں کو الگ تھلگ کیا اور ان سے فیصل آباد کے کسی ہائی پروفائل کو کال کرنے کے لیے استعمال ہونے والے موبائل فونز ضبط کر لیے گے۔
کارروائی کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو ملازمت سے معطل کر دیا گیا۔
پنجاب کی جیلوں کے ڈی آئی جیز سالک جلال اور نوید رؤف نے چھاپہ مار ٹیموں کی قیادت کی جو پیر کو لاہور سے فیصل آباد روانہ کی گئیں۔
انگلش میں خبریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
پنجاب حکومت کے اعلیٰ حکام نے معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات میاں فاروق نذیر کو آپریشن کو انتہائی خفیہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔
خصوصی سکینرز سمیت جدید ترین آلات سے لیس ٹیموں نے جیل کی تمام بیرکوں، سیلوں اور حصوں کو سکین کیا۔
ایک باخبر ذریعے نے بتایا کہ ماہرین یہ جان کر حیران رہ گئے کہ قیدی جیل سے غیر مجاز کالوں کو روکنے کے لیے حکام کی جانب سے نصب کیے گئے جیمرز کو غیرفعل یہ مارتے ہوئے موبائل فون استعمال کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ چھاپہ مار ٹیموں نے محکمہ داخلہ پنجاب کے ذریعے اعلیٰ حکام کو اطلاع دی کہ مشتبہ افراد نے کال کرنے سے پہلے جیمرز کوغیرفعل کرا یہ مارا ہے۔
مشکوک کالز
ذرائع نے بتایا کہ سرکاری ذریعے نے دعویٰ کیا کہ کچھ ایجنسیوں نے پنجاب حکومت کو معلومات فراہم کیں جب انہوں نے مشکوک کالوں کا پتہ لگایا جو عام نوعیت کی نہیں تھیں۔ عام طور پر پنجاب کی جیلوں کے قیدیوں کی جانب سے موبائل فون کے استعمال کی شکایات گاہے بگاہے سامنے آتی رہتی ہیں کیونکہ وہ جیلوں سے باہر اپنے اہل خانہ اور دیگر متعلقہ افراد سے رابطہ کرتے ہیں۔ لیکن، اس خاص واقعے نے پنجاب حکومت کو ایک خصوصی ٹارگٹڈ آپریشن کے لیے لاہور سے ایک ہائی پروفائل ٹیم کو فعال کرنے پر اکسایا ہے۔
سرکاری ذریعے نے بتایا کہ کالز واٹس ایپ پر کی گئی تھیں اور پنجاب جیل حکام نے قیدیوں سے برآمد ہونے والے موبائل فونز فرانزک تجزیہ کے لیے بھیجے تاکہ تفتیش کا دائرہ مزید وسیع کیا جا سکے۔