Friday, September 20, 2024

کم عمری کی شادی کے خلاف اقدامات، لاہور ہائیکورٹ

- Advertisement -

لاہور ہائی کورٹ نے 14 سالہ لڑکی کے اغوا اور زیادتی کے ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری مستردکی، اس حکم کے علاوہ کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

لاہور ہائیکورٹ نے پراسیکیوٹر جنرل کو کم عمری کی شادی کے حوالے سے معیاری آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) تیار کرنے کے لیے پنجاب پولیس کے سربراہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت بچوں کی شادیوں کو روکنے پر بضد ہے اور اس طرح کے رواج کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کرتی ہے۔

جسٹس انوار الحق پنوں نے 22 صفحات پر مشتمل مکمل فیصلہ سنایا جس میں کیس کی باریکیوں کا خاکہ پیش کیا گیا۔ پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس، پنجاب پراسیکیوٹر جنرل اور ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ان اہم عہدیداروں میں شامل تھے جن کو عدالت نے فیصلے کی تقسیم کا حکم دیا۔

انگلش میں خبریں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

فیصلے میں متاثرہ لڑکی کی عمر نوٹ کی گئی اور کہا گیا کہ طبی ماہرین کے مطابق اس کی عمر 13 سے 14 سال کے درمیان ہے۔ تاہم ملزم کا موقف ہے کہ اس نے لڑکی کو اغوا کرنے کے بجائے اس سے شادی کی۔

ملزم سے عدالت کی تفتیش کے مطابق، 1929 کے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کو توڑ دیا گیا ہے۔ فیصلے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مشتبہ شخص کو قانون کے مطابق شادی کرنے سے پہلے پاکستانی قوانین پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

متاثرہ نے ملزم پر عصمت دری اور اغوا کا الزام لگاتے ہوئے اپنی آزمائش بیان کی ہے۔ عدالت کے فیصلے کے مطابق پولیس کی تفتیش کے بعد ملزم کو قصوروار پایا گیا۔

سرگودھا میں اس شخص پر زیادتی اور اغوا سمیت متعدد جرائم کا الزام ہے۔

اسی مصنف کے اور مضامین
- Advertisment -

مقبول خبریں