موجودہ حالات میں پاکستان کی عسکری طاقت ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے
پاکستان سمیت دنیا کے تقریباً سبھی ممالک بیرونی خطرے سے نمٹنے کے لیے منظم اور مضبوط عسکری طاقت بننے کی کوشش کرتے ہیںتاکہ وقت ضرورت اندرونی و بیرونی خلفشار سے نمٹا جا سکے مگر اکیسویں صدی میں ہر ملک کی فوج جنگ کے ساتھ ساتھ دوران امن میں بھی ملک و قوم کے ساتھ کئی محاذوں پہ کھڑی نظر اتی ہے۔
قیام پاکستان کے بعد
جہاں تک پاکستان کی مسلح افواج کا تعلق ہے پاکستان کے مسلح افواج کی تشکیل 1947 میں ہوئی تھی جب یہ ملک برطانوی سلطنت سےازادی حاصل کر کے دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تھا۔ قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے سے ہی ریاست کو کئی محاذوں پہ شدید بحران کا سامنا تھا 1947 کی خون ریزی اور 1948 کی جنگ نے اس میں اور شدت پیدا کر دی اور مضبوط فوج ملک کے لیے ناگزیر ہو گئی قیام پاکستان کے بعد پاک فوج کے ادارے کو کئی چیلنجز پر قابو پانا پڑا۔
انگلش میں خبریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
آزادی کے وقت ہندوستانی فوج کے برعکس، جسے بنیادی طور پر سابق برطانوی ہندوستانی فوج سے وسائل اور سہولیات وراثت میں ملی تھیں،مگر پاکستان کو اس کے برعکس بہت سے مسائل کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان کو اکثر تخریبی کاروائیوں سے بھی نمٹنا پڑا۔
سال 1948 1965 1971 اور اگر کارگل کو بھی ملا لیا جائے تو پاکستان کی فوج نے آج تک چار بڑی جنگیں لڑی ہیں اس کے علاوہ مختلف اوقات میں اپنی مغربی سرحد میں پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ بھی سرحدی جھڑپیں رہی ہیں۔
ستمبر 11 میں امریکہ پر دہشتگردی کے حملے کے بعد سے آج تک پاکستانی فوج اپنے سرحدی علاقوں میں تخریبی کاروائیوں سے نمٹ رہی ہے۔ اور وقتا فوقتا ان ملک دشمنوں کے خلاف اپریشن بھی کرتی ہے اور ان کے دہشت گردانہ حملوں کا بھرپور جواب بھی دیتی رہی ہے اور ملک اور قوم کی عزت وقار کا باعث بھی بنی ہے۔
اقوام متحدہ
پاکستان کی فوج نے صرف ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ بیرون ملک اقوام متحدہ کے سائے تلےکئی محاذوں پر اپنی پیشہ وارنہ صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوے ملک کا نام روشن کر چکی ہے جس میں کچھ مندرجہ ذیل ہیں۔
کانگو میں اگست 1960 سے مئی 1964 تک آرڈیننس، ٹرانسپورٹ یونٹس کے ساتھ چار سو جوانوں نے ذمداری نباہی۔
مغربی نیو گنی میں اکتوبر 1962 سے اپریل 1963 تک اپنے 1500 فوجیوں پر ممشتمل دستے نے خدمات انجام دیں۔
نمیبیا میں اپریل 1989 تا مارچ 1990 تک 20 فوجیوں نے بطور مبصر اقوام متحدہ کے اس پروگرام میں حصہ لیا۔
عراقی حملے کے بعد کویت میں دسمبر 1991 تا اکتوبر 1993 تک 1136 فوجیوں کے ساتھ عام شہریوں نے زمیداریوں کو نبھایا۔
ہیٹی میں 1993 سے 1996 تک پاکستان نے اپنا 525 فوجیوں پر مشتمل دستہ بھیجا۔
کمبوڈیا میں مارچ 1992 سے نومبر 1993 میں پاکستان کے 1106 فوجی، مائن کلیئرنس اور مختلف عملہ شامل تھا۔
پروٹیکشن فورس کے طور پر اقوام متحدہ کی درخواست پر بلقان ممالک کی خونریزجنگ میں مارچ 1992 تا فروری 1996 تک افواج پاکستان نے اپنی زمیداریاں سمبھالیں اس آپریشن میں چھ فوجیوں کی شہادتیں ہوئیں۔
پاکستانی افواج نے صومالیہ کی خطرناک خانہ جنگی میں مارچ 1992 سے فروری 1996 تک ایک اہم آپریشن میں حصہ لیا۔ اقوام متحدہ کی آواز پر سب سے پہلا ملک پاکستان ہی تھا جو اپنے پانچ سو فوجیوں کو لے کر موغادیشو میں اترا۔ اس خون ریز خانہ جنگی کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے جو آپریشن شروع ہوا اس میں پاکستان کے 7200 فوجیوں نے حصہ لیا اور اس آپریشن میں39 فوجی جوان شہد ہوئے۔
گلوبل فائر پاور کی رپورٹ
پاکستان کی عسکری طاقت اس خطے کی ہی نہیں بلکہ دنیا کی مضبوط اور منظم فوجوں میں سے ایک ہے اس کی ایک تازہ مثال گلوبل فائر پاور 2023 کی رپورٹ ہے جس میں پاکستان کو دنیا کی دس بہترین اور مضبوط فوجوں کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔
افواج پاکستان اس وقت تیزی کے ساتھ ابھرتی ہوئی عسکری طاقتوں میں سے ایک ہے 2020 کی اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا رینک 15 تھا جو مزید بہتر ہو کر اب ساتویں پوزیشن میں آگیا ہے اس نے فرانس جاپان اور اٹلی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی تیزی کے ساتھ پاکستان اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کر رہا ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج اس وقت پوری اسلامی دنیا کے اندر سب سے زیادہ طاقتور فوج بھی ہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک بھی ہے جس نے ایٹمی دھماکہ کر رکھا ہے۔
روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ پاکستان بیلسٹک میزائل کے اندر بھی خود کفالت ثابت کر چکا ہے اس کا بیلسٹک میزائل سسٹم دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہے شاہین اور غوری میزائل اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔