کراچی: ڈرامہ کیس نمبر9 نے مقبولیت کے ریکارڈ توڑ تے ہوئےسوشل میڈیا پر دھوم مچا دی ہے۔
تاہم ڈرامہ کیس نمبر 9 بین الاقوامی میڈیا میں بھی زیر بحث ہے۔
ڈرامے کے مصنف جیو چینل کے نامور اینکر شاہ زیب خانزادہ ہیں جن کی تحریر نے لوگوں کے دل موہ لیے ہیں۔ اس ڈرامے نے مقبولیت کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر تاریخ رقم کردی ہے۔
انگلش میں خبریں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
معروف برطانوی میڈیا بی بی سی پر ڈرامے کی بازگشت واضح طور پر نمایاں ہے جس نے اس ڈرامے کےخاص سینز کو اپنی وسیع رپورٹ میں شامل کیا ہے۔
بی بی سی رپورٹ میں بھی ڈرامہ کیس نمبر 9 کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
کیس نمبر 9 کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی نے رپورٹ میں ڈرامے کی یہ سطریں استعمال کیں۔
کیا اوقات ہے سحر کی کہ وہ مجھے انکار کرے، فلرٹ کرنے، غصہ کرنے اور ریپ کرنے میں فرق ہوتا ہے، سحر طلاق یافتہ ہیں، کنواری نہیں ہیں ، اس جملے پر سحر کی وکیل جواب دیتی ہیں کہ ملزم کامران اور اُن کے وکیل تمام طلاق یافتہ خواتین کے کردار پر سوال اٹھا رہے اور وہ ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں جو عموماً متاثرہ خاتون کو ریپ کیسز میں آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ٹی وی ڈرامہ “کیس نمبر 9،” جو ریپ کیس پر مبنی ہے، ان سلسلے کو پیش کرتا ہے۔اس ڈرامے میں عصمت دری کے ایک کیس کی کمرہ عدالت میں جرح کی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے، متاثرہ کی وکیل سحر، ڈرامے میں بتاتی ہیں کہ “متاثرہ کے کردار کے بارے میں سوال کرنا یا وہ کنواری ہے یا نہیں، اس بات کا تعین نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی، بلکہ ملزم کے بجائے زیادتی کا نشانہ بننے والی لڑکی کا ٹرائل شروع ہوتا ہے۔”
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں بسنت منانے کا اعلان کر دیا گیا
ملزم کے وکیل کامران کے مطابق، ایک معصوم آدمی پر عصمت دری جیسے خوفناک جرم کا الزام لگایا جا رہا ہے، جس سے سحر کے کردار کے بارے میں خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ایک شخص متعدد جنسی تعلقات رکھتا ہے، تب بھی وہ عصمت دری کا مستحق نہیں ہے۔
ڈرامے کا کمرہ عدالت بلاشبہ بہت شاندارہے، لیکن ملزم کامران کے جرح کے دوران، دفاعی وکیل کے سوالات، انداز اور اشارے بالکل وہی ہیں جو عام طور پر بدسلوکی کے شکار افراد کو عدالت میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس ڈرامے نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ جب کہ کچھ لوگ ڈرامے میں پیش کیے گئے حقائق کو اہم سمجھتے ہیں، دوسروں کا خیال ہے کہ جرح کے دوران چیلنج کرنے والے سوالات پاکستانی قانونی کارروائی کا ایک لازمی جزو ہیں۔


