فریئر ہال برطانوی دور کا ایک اہم فن تعمیر ہے۔ اسے سر ہنری فریر کے اعزاز کے لیے بنایا گیا تھا۔ سر ہنری نے معاشی ترقی کے لیے بہت تعاون کیا اور سندھی کو سندھ کی سرکاری زبان بنانے کے لیے بھی بھرپور کوشش کی۔
کراچی کی بہترین چیزوں کے بارے میں بات کرنا اور فریئر ہال کو پیچھے چھوڑنا یہ چیز مناسب نہیں ہے۔ یہ منفرد پرکشش مقامات کے ساتھ بہترین اور سب سے زیادہ دیکھے جانے والے سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ناطے اپنے سیاحوں کو بہت زیادہ قدرتی خوبصورتی پیش کرتا ہے۔ آپ کراچی میں تفریحی، وقار، صوفی ازم، تاریخ، ثقافت، فن تعمیر اور ہر چیز کا رنگ حاصل کر سکتے ہیں۔ آخر کار آپ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ کراچی بہترین ہے۔
انگلش میں خبریں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
فریئر ہال کئی سالوں تک سندھ کی سب سے بڑی لائبریری رہی جو پھر کچھ مسائل کی وجہ سے بند کردی گئی تھی۔ ہال کو 2011 میں عوام کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔ فریئر ہال سول لائنز پر میریٹ ہوٹل کے قریب واقع ہے۔
فریئر ہال برطانوی دور میں 1865 میں ٹاؤن ہال کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ یہ ہال کنگ ایڈورڈ ول اور سیٹھ ڈنشا کے گھر کے طور پر کام کرتا تھا۔
برطانوی رہنما 1877 میں بیڈمنٹن کے قوانین کی وضاحت کے لیے ہال میں جمع ہوئے۔
فریئر ہال کی تعمیر کے لیے 12 معماروں نے ہال کا فن تعمیر اور ڈیزائن تجویز کیا جبکہ ان میں سے صرف ایک لیفٹیننٹ کرنل کلیئر ولسن کے ڈیزائن کو منتخب کیا گیا۔
اس ہال کی تعمیر کے لیے 180,000 روپے لگے تھے اور اسکے فنڈز میونسپلٹی نے اکٹھے کیے تھے۔
فریئر ہال کا انداز بہت گوتھک اور وینیشین ہے۔ یہ پیلے رنگ کے چونے کے پتھروں اور سرخ / سرمئی ریت کے پتھروں کا استعمال کرکے بنایا گیا ہے۔ فن تعمیر میں برطانوی اور مقامی اجزاء کا ٹچ ہے۔
ستونوں اور دیواروں پر منفرد اور پیچیدہ موزیک نقش و نگار ہیں۔ زرد رنگ کے پتھر راجستھان اور تھر سے منگوائے گئے ہیں تاکہ اسے مزید خوبصورت بنایا جا سکے۔
لیاقت لائبریری ہال
وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے نام سے منسوب لیاقت لائبریری ہال کے گراؤنڈ فلور میں موجود ہے۔ یہ سب سے بڑی لائبریری ہے جس میں 70,000 سے زیادہ کتابیں ہیں۔ آپ تمام کتابیں، گائیڈز، لغات، اور مخطوطات حاصل کر سکتے ہیں جو کہیں اور تلاش کرنا مشکل ہے۔
فریئر ہال کی پیشکش
کیا آپ 1800 کے فن تعمیر کے پرستار ہیں؟ کیا آپ کو فن تعمیر دلچسپ لگتا ہے؟ اگر ہاں تو فریئر ہال آپ کے لیے کسی جنت سے کم نہیں۔ یہ پاکستانی اور برطانوی تاریخ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
فریئر ہال کبھی ہمارے قائد محمد علی جناح کی رہائش گاہ ہوا کرتا تھا لیکن وہ اس میں کبھی نہیں رہے۔ اس ہال کو محترمہ فاطمہ جناح کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ ان کے بعد ہال نے میوزیم کا مقصد پورا کیا۔
کتابوں کے علاوہ فریئر ہال میں فطرت سے محبت کرنے والوں کو پیش کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ہال سرسبز اور پیچیدہ باغات سے گھرا ہوا ہے۔ یہ خوشگوار باغات گوتھک فن تعمیر کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
باغات کی تعمیر 1888 میں ہوئی تھی۔ آزادی سے پہلے یہ لان اپنی خوبصورتی کی وجہ سے بادشاہوں کے لان اور ملکہ کے لان کے نام سے جانے جاتے تھے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد اس باغ کا نام جناح گارڈن رکھ دیا گیا۔