Monday, December 2, 2024

کیا عورت مارچ شرعی تقاضے پورے کر رہا ہے؟

- Advertisement -

پاکستان کے ہر بڑے شہر میں 8 مارچ کو، پاکستانی خواتین اپنی قوم کی پدرانہ روایات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خواتین کا عالمی دن منانے کے لیے اکٹھے ہوتی ہیں عورت مارچ اب ہر سال منایا جانے لگا ہے۔

کہا یہ جاتا ہے کہ یہ  عورت مارچ خواتین کے حقوق کے لئے ہوتا ہے یعنی اس مارچ میں خواتین پر کیے جانے والے تشدد کے خلاف جواب مانگا جاتا ہے اس کے علاوہ یہ ان خواتین کی حمایت بھی کرتا ہے جو سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں، عوامی جگہوں، گھر اور آفس میں تشدد اور ہراساں کیے جانے کا سامنا کرتی ہیں۔

۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا عورت مارچ واقعی صرف اسی مقصد کے لئے منایا جا رہا ہے؟
۔ کس طرح پاکستان میں نسوانی تحریک ایک پدرانہ نظام اور میڈیا کی مسلسل ہلچل کے باوجود بڑھ رہی ہے؟
۔ کیا اس مارچ کو شرعی تقاضے پورے کرتے دیکھا جا رہا ہے؟

انگلش میں خبریں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

اسلام کے خلاف 

کیونکہ اس مارچ میں ہر سال ایک  نئے قسم کا ردعمل دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسے پوسٹر بنائے جاتے ہیں ایسے نعرے لگائے جاتے ہیں جس پر بڑا تنازعہ کھڑا ہوتا ہے۔ ممنوعہ موضوع کو اجاگر کرنے والی تصاویر، خواتین کا رقص کرنا یہاں تک کہ بیہودہ لباس بھی زیب تن کر کے مارچ میں شرکت کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جیسے مظاہرین خدا اور پیغمبر محمد کی اتھارٹی کو چیلنج کر رہے ہیں اور ان سے آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یہاں لوگوں کی اکثریت اپنی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق گزارنے پر ترجیح دیتی ہے۔ پاکستانی قانون خدا یا پیغمبر پر تنقید کرنے سے منع کرتا ہے یہ مارچ بے حیائی کا مارچ ہے۔ اس عورت مارچ کو اسلام مخالف اور مغربی پروپیگنڈے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔

اسلام میں عورت کا مقام 

عورت ذات کو اسلام نے جو مرتبہ و مقام عطا فرمایا ہے اس سے دیگر مذاہب یکسر خالی ہیں۔ اسلام کےزریعے عورت کو جینے کا حق ملا معاشرے میں اچھا مقام ملا کہیں بیٹی، ماں اور کہیں بیوی بہن جیسی عظیم الشان صفت ملیں۔ عورت کو گھر کی ملکہ بننے کا اعزاز ملا تین بچیوں کی اچھی تربیت کرنے پر جنت کی خوشخبری ملی۔

 اس مارچ میں خواتین کی تحریک کو ملک بھر میں غلط بیانی اور بے عزتی کے لیے کھلی چھوٹ دےدی گئی ہے۔ اس ملک میں جسے اسلامی ریاست کا نام دیا جاتا ہے۔ یہاں کی ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کھلے عام نکل کر اپنے  حقوق حاصل کرنے کی بات کرتی ہیں اور ایسے موضوع کے بینرز  اور پوسٹرز  بنا کے لاتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں توہین مذہب کے الزامات اور قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔

عورت مارچ میں نظام معاشرت پر تنقید

چونکہ مارچ پورے پاکستان میں ایک سالانہ فکسچر بن گیا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مارچ میں تفریحی طور پر جانا ہوتا ہے۔ خواتین گھر کا کام، سب کا کام اور میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں کے ساتھ پوسٹر اٹھائی ہوتی ہیں۔اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مسئلہ حقوق نسواں سے زیادہ اسلام کی طرف سے دیے گئے نظام معاشرت کا ہے۔

پاکستانی قانون خدا یا رسول پر تنقید کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا اس مارچ کا عنوان حقوق نسواں کا تحفظ ہے لیکن مارچ میں اس طرح کے نازیبا ملبوسات زیب تن کر کے جانا ایک محنت کش اور پسماندہ خاتون کے لیے انتہائی مشکل ہے  جو اس میں شامل خطرات کے پیش نظر اپنے کاموں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔

اسلامی حدود 

پاکستان کی عوام اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اسلام کی طرف سے خواتین کو ملنے والے حقوق اللہ تعالٰی کے علم مطلق، حکمت اور آفیت کے آیئنہ دار ہیں کسی بھی زمانے میں کبھی کوئی نظام الله تعالٰی کے  بنائے ہوئے نظام کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

افسوس اس بات کا ہےکہ حکام منتظمین اور مظاہرین اس قسم کے ردعمل سے بچنے کے لیے بہت کم کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کیمرے کی آنکھ ایک دن کے پروگرام پر تو توجہ مرکوز کرتی ہے لیکن  وہ اس کی بڑی تصویر سے محروم ہیں۔

حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو بلا تفریق طبقے یا جنس سے تحفظ فراہم کرے گھریلو ملازمین اور محنت کش طبقے کی خواتین کے حقوق سے متعلق ایسے احکامت جاری کریں جو ان کے  تحفظ کے لئے بہتر ہوں۔

اختتام

عورت مارچ اگر حقوق نسواں کے لئے ہے تو وہ تمام شرعی تقاضوں کے مطابق ہو اس میں کسی اسلامی شعائر، معاشرتی اقدار، حیاو پاکدامنی اور حجاب کا مذاق نہ بنایا جائے۔ کیونکہ بیشتر مسلمان مردوزن اسلامی اقدار کے حوالے سے بہت  زیادہ حساس ہوتے ہیں۔

پاکستان میں 8 مارچ کو، پاکستانی خواتین اپنی قوم کی پدرانہ روایات کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عورت مارچ منانے کے لیے اکٹھے ہوتی ہیں

اسی مصنف کے اور مضامین
- Advertisment -

مقبول خبریں