آصف علی زرداری ایک بار پھر پاکستان کے صدر منتخب ہو گئے۔
ملک کے 14ویں صدر کے انتخاب کے لیے قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ کا وقت 4 بجے ختم ہونے کے بعد دونوں صدارتی امیدواروں کی موجودگی میں ووٹوں کی گنتی ہوئی جس میں آصف علی زرداری نے نامزدگی کا اعلان کیا۔ سنی اتحاد کونسل کے نامزد امیدواران اور دیگر۔ صدارت کے امیدوار محمود خان نے اچکزئی پر واضح برتری حاصل کی۔
انگلش میں خبریں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
زرداری کو کتنے ووٹ ملے؟
صدارتی انتخاب میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کا اعلان کردیا گیا جس کے مطابق حکمران اتحاد کے امیدوار آصف زرداری بھاری اکثریت سے کامیاب قرار پائے۔
انہوں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے 255 اور سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود خان اچکزئی کے 119 ووٹ حاصل کیے۔
پنجاب سے بھاری اکثریت
حکمران اتحاد کے امیدوار آصف علی زرداری نے پنجاب اسمبلی میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ الیکٹرول کالج کے پنجاب اسمبلی میں زرداری نے 246 ووٹ حاصل کیے جب کہ سنی اتحاد کونسل کے صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی نے 100 ووٹ حاصل کیے۔
صدارتی انتخاب کے دوران کل 6 ووٹ مسترد ہوئے۔ پنجاب اسمبلی کے پریذائیڈنگ آفیسر نثار درانی نے صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان کردیا۔
پنجاب اسمبلی کے کل 353 میں سے 352 نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ تحریک لبیک نے پنجاب اسمبلی میں صدارتی انتخاب میں ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی نے جیت کی خوشی میں نعرے لگائے۔
سندھ کے حالات
صدارتی انتخاب کے امیدوار آصف علی زرداری نے سندھ اسمبلی سے 151 ووٹ حاصل کیے۔ سنی اتحاد کونسل کے نامزد صدارتی امیدوار محمود خان اچکزئی نے 09 ووٹ حاصل کیے۔ عدالتی حکم کی وجہ سے دو ووٹوں کی گنتی نہیں ہو سکی۔
بلوچستان میں کلین سویپ
بلوچستان اسمبلی میں آصف زرداری کو 47 ووٹ ملے جب کہ محمود خان اچکزئی کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ وہ ان تمام جماعتوں اور اراکین کے مشکور ہیں جنہوں نے ان کا ساتھ دیا۔ آصف زرداری کو بلوچستان سے تاریخی کامیابی ملی ہے۔
بلوچستان اسمبلی کے 65 میں سے 62 ووٹ قابل استعمال رہے۔ 65 میں سے 47 ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا جبکہ 15 ارکان نے ووٹ نہیں دیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے سربراہ میر اسد بلوچ نے صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔
قومی اسمبلی کا ماحول
آج صبح قومی اسمبلی ہال کا انتظام الیکشن کمیشن کے حوالے کر دیا گیا اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اسمبلی ہال کے دروازے بند کر دیے گئے۔
اس کے علاوہ صدارتی انتخاب سے متعلق طریقہ کار اور ارکان کی رہنمائی کے لیے ہدایات آویزاں کی گئیں جب کہ قومی اسمبلی ہال کے اطراف میں پارلیمنٹ کی سیکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات کیے گئے تھے۔
صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کے عمل کے لیے قومی اسمبلی ہال مختص کیے جانے کے بعد 2 پولنگ بوتھ بنائے گئے۔
صدارتی انتخاب کے قومی اسمبلی میں پریزائیڈنگ افسر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق تھے جنہوں نے صبح 10 بجے انتخابی عمل کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فون کا استعمال ممنوع ہے، کوئی رکن موبائل فون استعمال نہیں کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: حسن اور حسین نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری معطل
صدارتی انتخاب میں سینیٹر شیری رحمان کو آصف علی زرداری کا پولنگ ایجنٹ جبکہ سینیٹر شفیق ترین کو محمود خان اچکزئی کا پولنگ ایجنٹ مقرر کیا گیا جس کے بعد پولنگ ایجنٹس کو خالی بیلٹ بکس دکھا کر سیل کر دیا گیا۔
پولنگ سے قبل صدارتی امیدوار آصف زرداری اور محمود خان اچکزئی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ گئے تھے جب کہ بعد میں دیگر ارکان کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔
تحریک انصاف کے سینیٹر عون عباس نے ووٹ کاسٹ کیا تو عمران خان کے حق میں نعرے لگائے۔ بعد ازاں سینیٹر اعجاز چوہدری کا نام ووٹ کے لیے طلب کیا گیا تو سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے اعجاز چوہدری کی رہائی کے لیے نعرے لگائے۔
بعد ازاں وزیراعظم شہباز شریف اور صدارتی امیدوار آصف علی زرداری نے بھی ووٹ کاسٹ کیا۔ جس کے بعد اسحاق ڈار اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی ووٹ کا حق استعمال کیا۔
تازہ ترین خبروں کے لیے یہاں کلک کریں