عربی خطاطی کا لباس پہننے والی خاتون کو توہین مذہب کے الزام میں ہراساں کیا گیا۔
پاکستانی شہر لاہور میں ایک خاتون کو مبینہ طور پر عربی خطاطی کی پرنٹ والی شرٹ پہننے پر توہین مذہب کے الزام میں ہراساں کیا گیا۔
انگلش میں خبریں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
پاکستان میں مشتعل ہجوم کی طرف سے توہین مذہب کے الزام میں کسی شخص پر تشدد کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے۔
اتوار کو پنجاب کے شہر لاہور میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا، جب اچھرہ بازار میں اپنے لباس کے ڈیزائن کے لیے خریداری کے دوران مشتعل ہجوم نے ایک خاتون پر توہین مذہب کا الزام لگایا۔ ہجوم نے الزام لگایا کہ خاتون کے لباس کے پرنٹ پر قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں۔
اس صورتحال میں پنجاب پولیس کی خاتون پولیس اہلکار اے ایس پی گلبرگ بانو نقوی کی بروقت کارروائی نے نہ صرف صورتحال کو بگڑنے سے بچایا بلکہ خاتون کو مشتعل ہجوم سے نکالنا بھی ممکن بنایا۔
جبکہ بعد میں مقامی علماء نے اس بات کی تصدیق کی کہ خاتون کی قمیض پر کوئی قرآنی آیت نہیں لکھی گئی ہے۔
اصل معاملہ کیا تھا؟
اتوار کی سہ پہر لاہور کے اچھرہ بازار میں اپنے شوہر کے ساتھ خریداری کرنے والی ایک خاتون کے لباس کے ڈیزائن پر عربی خطاطی میں چند الفاظ لکھے گئے، جنہیں مشتعل ہجوم نے خاتون پر مبینہ طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ قرآنی آیات والا لباس پہننا توہین رسالت ہے۔
جس کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد اچھرہ بازار میں جمع ہونے لگی اور مشتعل ہجوم نے خاتون اور اس کے شوہر کو ہراساں کرنا شروع کر دیا۔
صورتحال خراب ہونے پر خاتون نے مدد کے لیے لاہور پولیس کو اطلاع دی جس پر اے ایس پی گلبرگ سیدہ شہربانو نقوی نے فوری طور پر موقع پر پہنچ کر مشتعل ہجوم کے ساتھ نہ صرف مقامی علمائے کرام کی مدد سے صورتحال کو خراب ہونے سے روکا۔ معاملے کو سمجھتے ہوئے اس نے ان کے مذہبی جذبات کو قابو میں رکھا اور مذکورہ خاتون کو بحفاظت ان کے درمیان سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے۔
واقعے کے فوراً بعد ہی مشتعل ہجوم کے درمیان خاتون کی کئی ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں۔
ایسی ہی ایک ویڈیو میں خاتون کو ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ ہجوم میں موجود ایک شخص نے اس پر مبینہ طور پر توہین مذہب کا الزام لگایا اور خاتون نے پریشانی میں اپنا چہرہ چھپا لیا۔
جبکہ خاتون پولیس اہلکار اے ایس پی شہربانو نقوی کی مشتعل ہجوم سے خطاب کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جس میں وہ ہجوم کو یقین دلاتی نظر آرہی ہیں کہ اگر خاتون توہین مذہب کا ارتکاب کرتی ہے۔
اگر ایسا ہوا تو ان کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے۔ اس کے ساتھ انہیں بازار میں نقاب اور برقعے میں ملبوس ایک خاتون کو بحفاظت باہر نکالتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس واقعے کی ابھی تک پولیس میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے اور دونوں فریقین کی جانب سے بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کرلیا گیا ہے۔
پہلی ترجیح عورت کا تحفظ تھا
پہلی ترجیح عورت کا تحفظ تھا، اگر وہ شور مچاتی اور قائل نہ کرتی تو صورتحال مختلف ہوتی۔
اے ایس پی شہربانو نقوی، بہادر خاتون پولیس آفیسر جنہوں نے اچھرہ بازار سے خاتون کو مشتعل ہجوم سے بچایا، نے واقعے کے بارے میں صحافیوں کو بتایا، ہمیں دوپہر 1 سے 1:30 کے درمیان بلایا گیا تھا۔ قریبی کال موصول ہوئی۔ یہ پہلا اشارہ تھا کہ کچھ غلط تھا۔ کال میں بتایا گیا کہ ایک خاتون نے بازار میں گستاخی کی ہے، اس کے کرتے پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں اور لوگ جمع ہیں۔
اے ایس پی شہربانو نقوی نے مزید کہا کہ یہ خبر علاقے میں تیزی سے پھیل گئی اور پانچ سے دس منٹ میں بھیڑ جمع ہونا شروع ہوگئی۔ صورتحال مزید خراب ہوگئی کیونکہ ہم آسانی سے مقام تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اس علاقے تک پہنچنے کے لیے ہمیں 400 سے 600 میٹر پیدل چلنا پڑتا تھا۔
جب ہم وہاں پہنچے، تقریباً 200-300 لوگ ریسٹورینٹ کے باہر جمع ہو چکے تھے، وہ کہتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تک کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ شرٹ پر کیا لکھا ہے۔ ایسے میں سب سے اہم کام اس خاتون کو علاقے سے نکالنے کی کوشش کرنا تھا تاکہ اس کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: نیوز اینکر اشفاق اسحاق پر بیوی کی جانب سے وحشیانہ تشدد کا الزام
اے ایس پی شہربانو نقوی نے کہا کہ ہمیں ان بھیڑ سے بات کرنی تھی۔ ہم نے بھیڑ سے کہا کہ وہ مذکورہ خاتون کو ہمارے ساتھ جانے دیں اور یقین دلایا کہ اگر وہ جرم میں قصوروار پائی جاتی ہے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
جب وہ بہادری کے ساتھ عورت کو ہجوم سے محفوظ مقام پر لے آئی تو وہ کہتی ہیں کہ اگر میں اس وقت چیخ چیخ کر ہجوم کو قائل نہ کرتی کہ ہم اس کے بارے میں کچھ کریں گے تو حالات مزید خراب ہوتے۔ یہ وہ وقت تھا جب سب کچھ ہمارے حق میں ہوا، اللہ کا شکر ہے۔
علماء کی طرف سے تصدیقی ویڈیو
لیکن اے ایس پی شہربانو نقوی کے لیے یہ کافی نہیں تھا کہ وہ خاتون کو مشتعل ہجوم سے بحفاظت باہر نکالیں کیونکہ ماضی میں کئی ایسے واقعات ہو چکے ہیں جب پولیس کسی شخص کو ہجوم سے بچانے میں کامیاب ہوئی لیکن بعد میں لوگوں نے تھانے پر دھاوا بول دیا۔
چنانچہ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اے ایس پی گلبرگ شہربانو نقوی کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر سامنے آئی، جس میں انہوں نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ آج ایک خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ اچھرہ بازار میں آئی تھی۔ خریداری کے لیے گئی تو اس نے کرتہ پہن رکھا تھا جس پر عربی کے کچھ حروف لکھے ہوئے تھے، جس کے بعد وہاں موجود لوگوں نے سمجھا کہ یہ کوئی مذہبی الفاظ ہیں اور اس معاملے نے غلط فہمی کو جنم دیا۔
اسی ویڈیو بیان میں مذکورہ خاتون اور کچھ مقامی مذہبی اسکالرز بھی ان کے ساتھ موجود تھے۔ ایک عالم دین نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے قمیض پر چھپے ہوئے حروف دیکھے ہیں اور وہ عربی حروف ہیں لیکن وہ عام الفاظ تھے، بیٹی نے کہا ہے کہ معافی کے بعد وہ ایسا لباس نہیں پہنیں گی۔
خاتون کا بیان
اس کے بعد مذکورہ خاتون نے اس ویڈیو بیان میں یہ بھی کہا کہ، میں خریداری کے لیے اچھرہ بازار گئی تھی اور مجھے نہیں لگتا تھا کہ میں نے جو کرتہ پہنا ہوا ہے وہ ڈیزائن ہے، مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس پر ایسے الفاظ لکھے ہوئے ہیں جنہیں لوگ عربی سمجھ جائیں گے، میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، جو کچھ بھی ہوا لاعلمی میں ہوا، میں مسلمان ہوں اور کبھی توہین رسالت یا توہین رسالت کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ یہ سب لاعلمی میں ہوا، میں اب بھی معذرت خواہ ہوں اور آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
غلط فہمی کی وجہ سے ایک خاتون کو مشتعل ہجوم سے بہادری سے ہٹانے پر پنجاب پولیس نے خاتون اے ایس پی سیدہ شہربانو نقوی کو سرکاری اعزاز دینے کی بھی سفارش کی ہے۔
عورت کے لباس پر کیا لکھا تھا؟
سوشل میڈیا صارفین نے توہین مذہب کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے ہراساں کرنے والی خاتون کے پہنے ہوئے لباس کے مختلف اسکرین شاٹس شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سعودی عرب میں خواتین کے لباس کا ایک برانڈ ہے جسے شالک ریاض کہتے ہیں۔ جہاں عربی حروف تہجی والے کپڑوں کے ایسے ڈیزائن عام ہیں۔
شیئر کی جانے والی مختلف ویڈیوز اور تصاویر میں خاتون نے جو لباس پہنا ہوا تھا اس پر عربی حروف میں حلوہ کا لفظ چھپا ہوا تھا۔
عربی زبان میں حلوہ کا مطلب خوبصورت، خوبصورت اور میٹھا ہے۔
عورت سے معافی مانگنا بلا جواز ہے، ہراساں کرنے والوں کو معافی مانگنی چاہیے
مشتعل ہجوم، خاتون پولیس اہلکار اور خاتون کے معافی مانگنے کی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر کچھ صارفین خاتون کی شناخت کو محفوظ بنانے اور اس کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بات کر رہے ہیں۔
چند خواتین مشتعل ہجوم کے سامنے خاتون کو بحفاظت باہر نکالنے اور معاملے کو سمجھنے پر پولیس افسر کی بہادری پر تبصرہ کر رہی ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر تبصرہ کرتے ہوئے اینکر رابعہ انعم نے لکھا کہ، خاتون پولیس افسر نے کیس کو سمجھداری سے حل کرنے پر بہت اچھا کام کیا، اب ریاست کو اس لڑکی کو تحفظ دینا چاہیے جسے بار بار ڈرایا اور ہراساں کیا گیا۔ مجرموں کو اندر ڈالیں تاکہ کوئی دوبارہ ایسا نہ کر سکے۔
صحافی رضا رومی نے لکھا کہ یہ خاتون پولیس افسر ایک اسٹار ہیں۔ انہوں نے بالکل وہی کیا جو ریاست کو کرنا چاہئے جب شہریوں کو مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں ہراساں کیا جاتا ہے اور ان پر حملہ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ، پاکستان کے توہین رسالت کے قوانین، ان کا روزانہ غلط استعمال، پرتشدد ہجوم اور ریاستی سرپرستی میں چلنے والے انتہا پسند گروہوں نے ملک کو اس پاگل پن کی طرف دھکیل دیا ہے۔